Get Adobe Flash player

آپ  (صلى الله عليه وسلم)نے میدان دعوت میں قدم رکھا اورنصیحت وموعظت کے راستے کواپنایا, اورارشاد ورہنمائی کے میدانوں میں گھسے  , اورلوگوں کواللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کی طرف بلا یا, اور کفر وشرک , بتوں کی پوجا اورباپ داداؤں کی ڈگرسے دوررہے,اورلوگوں کو برائیوں کوچھوڑنے اورحرام کردہ چیزوں سے درورہنے کی دعوت کا حکم دیا , تو اس پرکچہ لوگ ایمان لائے اوراکثرنے آپ کی تکذیب کی.

باوجودیکہ آپکے چجا ابوطالب کے ذریعہ اللہ نے آپ کی حفاظت فرمائی پھربھی آپکو بہت تکلیف پہنچائی گئی, آپ (صلى الله عليه وسلم) کا محاصرہ کیاگیا اورآپ (صلى الله عليه وسلم) کےعرصۂ حیات کوتنگ کردیا گیا, چنانچہ نبوت کے ساتویں برس آپ  (صلى الله عليه وسلم)اپنے چچا ابوطالب,اور بنی ہاشم وبنی مطلب کے کافرومسلمان تمام افراد کے ساتھ,-ماسوا ابولہب کے- , گھاٹی میں داخل ہوئے, جب گھاٹی میں داخل ہوگئے توقریش نے محاصرہ بندی پراتفاق کرلیا, اورصلح کی پیش کش قبول کرنا نامنظورکردیا,, اوربازاروں کے راستے ان پربند کردئے,اورکھانے پینے کے سامان کوروک دیا , یہاں تک کہ وہ رسول  (صلى الله عليه وسلم)کوقتل کرنے کے لیے انکے حوالے کردیں. اوراس ظا لمانہ وقاہرانہ برتاؤ کوایک دستاویزمیں لکہ کرخانہ کعبہ کے اندر لٹکادیا. گھاٹی میں داخل ہوجانے کے بعد آپ (صلى الله عليه وسلم) نے اپنے صحابہ کرام کو حبشہ کی طرف ہجرت کرجانے کا حکم دیدیا,کیونکہ انہیں مشق ستم بنایا جارہا تھا جسکی انکے اندربرداشت کی طاقت نہیں تھی,اوریہ حبشہ کی طرف  دوسری ہجرت تھی, توتقریبا تراسی مرد , اوراٹھارہ عورتوں نے ہجرت کیں,اورانکے پاس یمن کے مسلمان بھی چلے گئے. 

آپ (صلى الله عليه وسلم) گھاٹی میں تقریبا تین سال تک سخت بھوک وپیاس اورمشقت میں بند رہے,بہت ہی چپکے سے ان تک کوئی چیزپھنچ پاتی تھی یہاں تک کہ انھیں درخت کے پتے کھانے پڑے, اوراسی طرح یہ کیفیت دسویں سال تک مستمررہی یہاں تک کہ قریش کے چند لوگوں نے اس ظالمانہ دستاویزکوچاک کردیا ,توآپ (صلى الله عليه وسلم)اورانکے ساتھی گھاٹی سے باہرنکلے. 

اوراسی سال خدیجہ رضی اللہ عنہا انتقال کرگئیں, اورانکی وفات کے تقریباً دوہی مہینے بعد آپ کے چچا ابوطالب بھی وفات پاگئے. جب ابوطالب کا انتقال ہوگیا توقریش نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کوستانا شروع کیا جس کی وہ ابوطالب کی زندگی میں طاقت نہیں رکھتے تھے,اورآپ  (صلى الله عليه وسلم)پر تعصب اورظلم وستم کوسخت کردیا. (صلى الله عليه وسلم)

صحیحین میں ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے اورآپکے اردگرد ابوجہل اوراس کے ساتھی بیٹھے ہوئے تھے, ابھی کل ہی کہیں پراونٹ نحر کیا گیا تھا ,اتنے میں ابوجہل  کہتا ہے کہ: " تم میں سے کون ہے جوبنی فلاں کے اونٹ کی اوجھڑی لے کر آئے اور جب محمد سجدہ کریں تو ان کی پیٹھ پرڈالڈے؟

توقوم کا سب سے بدترین شخص اٹھ کھڑا ہوااور اسے لے آیا اورجب نبی (صلى الله عليه وسلم) سجدہ میں گئے توآپ کے دونوں کندھوں کے پیچ ڈالدیا. پھرسب ہنسنے لگے اورایک دوسرے پر گرنے لگے.توفاطمہ رضی اللہ عنہا دوڑی ہوئی آئیں اوراس کواٹھاکرپھیکا, پھران کو سب وشتم کرنے لگیں, جب آپ  (صلى الله عليه وسلم)نمازپوری کرلئے تواپنی آوازکو بلند کیا پھرآپ نے ان پربددعا کی, اورفرمایا:"اے اللہ! تو قریش کوپکڑلے", تین باریہی دھرایا, جب انہوں نے آپ(صلى الله عليه وسلم)  کی بددعاکوسنی توان کی ہنسی جاتی رہی, اورآپ کی بددعا سے ڈرے, پھرآپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا :" اے اللہ! توابوجہل بن ہشام ,عتبہ بن ربیعہ , شیبہ بن ربیعہ ,ولید بن عتبہ, امیہ بن خلف, اورعقبہ بن ابی معیط کو پکڑلے." ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد  (صلى الله عليه وسلم)کو حق کے ساتہ بھیجا میں نے بدرکے دن ان تمام لوگوں کو جن کا آپ (صلى الله عليه وسلم) نے نام لے کربددعا کی تھی مقتول پایا ,پھرانہیں بدرکے کنویں میں ڈھکیل دیا گیا.

اورامام بخاری نے روایت کیا ہے کہ :"عقبہ بن ابی معیط نے ایک دن آپ (صلى الله عليه وسلم)کے کندھے کوپکڑا اورآپکے کپڑے کوگردن میں لپیٹ کرسختی سے آپ کا گلا گھونٹا, اتنے میں ابوبکررضی اللہ عنہ دوڑے ہوئے آئے اوراس کو آپ سے دورکیا اور فرمایا : "کیا تم ایک آدمی کواس لیےقتل کرنا چاہتے ہوکہ وہ کہتا ہے میرارب اللہ ہے؟!"

جب آپ (صلى الله عليه وسلم) کے ساتہ اذیت بڑہ گئی تو طائف کی طرف نکل گئے اوروہاں قبیلہ ثقیف کے لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دی , توان کی طرف سے آپ کواستہزاء ودشمنی اورتکلیف کے سواکچہ نہ حاصل ہوا. اورانہوں نےآپ پرسنگباری کی یہاں تک کہ آپ کی دونوں ایڑیا ں خون آلود ہوگئیں, توآپ (صلى الله عليه وسلم) نے مکہ کی طرف واپسی کا فیصلہ کرلیا, اورراستے میں قرن ثعالب کے پاس پہنچےتواپنے سرکواٹھایا توکیا دیکھتے ہیں کہ بادل کا ایک ٹکڑا آپ پرسایہ کئے ہوئے ہے.توآپ نے غور سے دیکھا تو اس میں جبرئیل علیہ السلام تھے, جبرائیل نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کو پکارا اورکہا کہ اےمحمد! بے شک آپ کے رب نے آپ کی قوم کی باتوں اوران کے ردعمل کو سن لیا ہے اوراس نے آپ کے پاس پہاڑوں کے فرشتہ کوبھیجا ہے تاکہ آپ انکے بارے میں جو چاہیں حکم صادرکریں . پھرپہاڑکے فرشتہ نے آپکو پکارکرسلام کیا, پھرکہا کہ اے محمد! بے شک آپ کے رب نے آپ کی قوم کی باتوں اورانکے ردعمل کو سن لیا ہے اورمیں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں مجھےآپ کے رب نے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ ان کے بارے میں جوچاہیں حکم صادرکریں میں اس کے لئے تیارہوں ,اگرآپ چاہیں تومکہ کی دونوں پہاڑیوں کے بیچ ان کوپیس کررکھ دوں, (لیکن قربان جائیے رحمت عالم (صلى الله عليه وسلم) پر) آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا :"( نہیں) بلکہ مجھے اپنے رب سے یہ امید (قوی) ہے کہ ان کی پشت(یا نسل) سے ایسے لوگوں کونکالے(یاپیدا فرمائے) گا جوایک اللہ کی عبادت کریں گے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھرائیں گے."(متفق علیہ)

منتخب کردہ تصویر