Get Adobe Flash player

محمد صلى الله عليه وسلم کا طریقہ

عبادات ومعاملات اوراخلاق میں محمد صلى الله عليه وسلم کا طریقہ

أ- رمضان کے روزے رکھنے میں آپ (صلى الله عليه وسلم)کا طریقہ

1- نبی کریم (صلى الله عليه وسلم)کی عادت یہ تھی کہ جب تک رویت ہلال کی تحقیق نہ ہوجائے یا کوئی عینی گواہ نہ مل جاتا ,آپ روزہ شروع نہ کرتے تھے, اگرچاند نہ دیکھا جاتا اورکہیں سے اس کی شہادت بھی نہ ملتی توشعبان کے پورے تیس دن مکمل کرتے تھے.

2- اوراگرتیسویں رات کوبادل حائل ہوجاتا توآپ (صلى الله عليه وسلم) شعبان کے تیس دن مکمل کرتے تھے,اورآپ ابرآلود دن کو روزہ نہیں رکھتے تھے,نہ آپ نے اسکا حکم دیاہے.

3- آپ (صلى الله عليه وسلم) کی یہ عادت طیبہ تھی کہ رمضان کے اختتام پردوافراد کی شہادت طلب کرتے تھے.

أ- عمرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ:

1- آپ  (صلى الله عليه وسلم)نے چارمرتبہ عمرہ کیا:

پہلا: عمره حدیبیہ کا تھا,اور اسوقت مشرکوں  نے آپ کو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روک دیا تھا,توآپ جس جگہ پرروک دیے گئے وہیں قربانی نحروحلق کرکے حلال ہوگئے.

دوسرا: عمرہ قضاء ,جسکوآپ نے حدیبیہ کے بعد والے سال کیا.

تیسرا: حج كے ساتہ عمرہ کیا.

چوتھا:  مقام جعرانہ سے عمرہ کیا.

2- آپ  (صلى الله عليه وسلم)کے عمروں میں سے  کوئی بھی عمرہ مکہ سے باہر نکل کر نہیں تھا بلکہ سب کے سب مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے ہوئے تھا.

أ- قربانی کے جانورمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ:

1- ھدی میں نبی کریم  (صلى الله عليه وسلم)نے بکری اوراونٹ دیے ,اورازواج مطہرات کی طرف سے گائے  دی   , نیزآپ نے مقیم ہونے کی حالت میں, اوراپنےعمرہ میں اور اپنےحج میں ہدی پیش کی.

2- بکری کو جب آپ  (صلى الله عليه وسلم)ہدی میں بھیجتے توقلادہ (ہاریا پٹا) پہنادیتے تھے اورنشان نہ لگاتے تھے. جب آپ مقیم ہوتے اورھدی بھیجتے توکسی حلال چیزکو اپنے اوپرحرام نہ کرتے تھے.

1- آپ (صلى الله عليه وسلم) خرید وفروخت کرتے تھے لیکن رسالت کے بعد آپ کی خریداری زیادہ  تھی, آپ نے اجرت پےکام کیا, اورلوگوں کواجرت پے رکھا بھی, وکیل بنایا اوروکیل بنے بھی لیکن آپ کی توکیل وکیل بننے سے زیادہ تھی.

2- آپ (صلى الله عليه وسلم) نے نقد اورقرض دونوں طرح سےخریداری کی, آپ نےدوسروں کی سفارش کی اورآپ کےپاس دوسروں کی سفارش کی بھی گئی,  گروی کے ذریعہ قرض لیا اوربغیرگروی کے بھی. اورآپ نے(سامان) عاریتاً بھی لیا.

1- آپ  (صلى الله عليه وسلم)کا ارشاد ہے :"تمہاری دنيا کی چیزوں میں سے میرے لیےعورت اورخوشبو کومحبوب کردیا گیا ,اورمیری دونوں آنکھوں کی ٹھنڈ ک نماز میں رکھی گئی ہے"(نسائی)

اورآپ نے فرمایا :"اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جونان ونفقہ وجماع کی طاقت رکھے توشادی کرلے" (متفق علیہ) اورفرمایا :" زیادہ محبت کرنے والی اورزیادہ بچہ دینے والی عورت سے شادی کرو."(ابوداود)

أ- کھانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ:

1- آپ   (صلى الله عليه وسلم)کے پاس جوکچھ آتا اسے واپس نہ کرتے اورجونہ ہوتا اسکے لئے تکلف نہ کرتے تھے, آپ   (صلى الله عليه وسلم)کے پاس جوبھی پاک چیزپیش کی جاتی اسے تناول فرماتے مگریہ کی طبیعت اسے نہ چاہے. توآپ بغیرحرام قراردیے اسے چھوڑدیتے تھے ,اورآپ اپنے نفس کو اس سے نفرت پرنہیں اکساتے, آپ   (صلى الله عليه وسلم)نے کبھی کھانے میں عیب نہ لگایا, اگردل چاہا توکھالیا , ورنہ چھوڑدیا, جیساکہ سانڈ کے کھانے کوعادی نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑدیا.

1- آپ   (صلى الله عليه وسلم)صبح وشام خفیہ واعلانیہ طور پر لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے تھے,آپ نے مکہ میں تین سال تک پوشیدہ طورپردعوت دی لیکن جب اللہ کا یہ قول نازل ہوا: ) فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ[ (سورة الحجر:94)

"پس آپکو جو حکم دیا جارہا ہے اسے کھول کربیان کردیجئےاورمشرکین کی پرواہ نہ کیجئے"

تواللہ کے اس حکم پرعمل کرکے کھلم کھلا دعوت دینا شروع کردیا, اوراللہ کے راستے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ کیے بغیرہر چھوٹے بڑے ,آزاد وغلام ,مردوعورت ,جن وانس کو اللہ کی طرف بلانے لگے.

1- آپ (صلى الله عليه وسلم) لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ کویاد کرنے والے تھے,بلکہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی ساری باتیں اللہ کے ذکراوراسکی فکرمیں ہوتی تھیں, آپ کی امرونہی اورامت کے لئے کسی چیزکی تشریع سب کے سب اللہ کے ذکرمیں شامل تھی,آپ کی خاموشی بھی قلبی طورپرذکرالہی کو متضمن تھی, گویاکہ آپ ہرآن, ہرحالت میں ذکرمیں مشغول رہتے تھے اورذکراللہ آپ کی سانس کے ساتہ جاری وساری رہتا, اٹھتے بیٹھتے ,چلتے پھرتے,سوارہوتے,سفروحضرہروقت اورہرحال میں آپ اللہ تعالى' کو یاد کرتے تھے.اوراسکے ذکروفکرمیں لگے رہتے تھے.

أ- صبح وشام کے ذکرکے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ

1- آپ   (صلى الله عليه وسلم)سے اذان ترجیع اوربغیرترجیع ہرطرح سے ثابت ہے,اوراقامت ایک ایک مرتبہ اوردو دومرتبہ  دونوں مشروع کیا ہے,لیکن "قدقامت الصلاۃ " کا کلمہ آپ سے دوہی مرتبہ کہنا ثابت ہے – ایک دفعہ کہنا قطعا ثابت نہیں-

2- آپ   (صلى الله عليه وسلم)نے امت کو مؤذن کے کلمات کو اسی طرح دھرانے کومشروع قراردیا ہےجس طرح مؤذن کہتا ہے سوائے "حی على الصلاۃ"اورحی على الفلاح" کے کہ اس وقت "لاحول ولا قوۃ إلا باللہ" کہنا چاہئے.کیونکہ آپ سےایسا ہی کہنا صحیح طورسے ثابت ہے.

منتخب کردہ تصویر

12 preuves que Muhammad est un véritable prophète