Get Adobe Flash player

 اللہ تعالى' کا ارشاد ہے: ] يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ[ (سورة المائدة:67)

’’اے رسول!آپ پرآپ کے رب کی جانب سے جو نازل کیا گیا ہے اسے پہنچادیجئے,اورارآپ نے ایسا نہیں کیا توگویا آپ نے اسکا پیغام نہیں پہنچایا,اوراللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت فرمائے گا"

امام ابن کثیررحمہ اللہ فرماتے ہیں:"یعنی میرے پیغام کوپہنچائیے اورمیں آپ کی حفاظت اوردشمنوں پرآپ کی مدد ونصرت کروں گا ,اوران پرفتح نصیب کروں گا, اس لئے آپ خوف نہ کھائیں اورغمگین نہ ہوں, ان میں سے کوئی بھی آپ کو برائی نہیں پہچاسکتا, اس آیت کے نزول سے پہلے آپ  (صلى الله عليه وسلم)کی پہرہ داری کی جاتی تھی.

آپ کی حفاظت کی مثالوں میں سے وہ واقعہ بھی ہے جسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ :"ابوجہل نے ایک مرتبہ کہا کہ کیا محمد تم لوگوں کے بیج اپنے چہرہ کوخاک آلود کرتاہے؟ توکہا گیا : هاں, تواس نے کہا:قسم ہے لات وعزى'کی!اگرمیں اسے ایساکرتے دیکھ لیا تو اسکی گردن روند دوں گا , اوراس کے چھرہ کوخاک آلود کردوں گا, تووہ رسول (صلى الله عليه وسلم) کے پاس اس حال میں آیا کہ آپ نمازپڑھ رہے تھے اوروہ اس گمان میں تھا کہ آپ  (صلى الله عليه وسلم)کی گردن روند دیگا, راوی کہتے ہیں کہ: وہ آپ سے قریب ہی ہواتھاکہ اپنی ایڑیوں کے بل پلٹتے اوراپنے ہاتھوں سے بچاؤ کرتے بھاگا, تولوگوں نے کہا :تمہیں کیا ہوگیا؟ تواس نے کہا کہ میرے اوراس کے درمیان آگ کا ایک خندق ہے, ہولناکیاں ہیں اور پر ہیں پھرآپ (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا :"اگروہ میرے قریب آتا توفرشتے اس کا ایک ایک حصہ اچک لیتے" (رواہ مسلم)

ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ابوجہل نے کہا :"اگرمیں محمد کوکعبہ کے پاس نمازپڑھتے پایا تواس کی گردن روند دوں گا ,تویہ بات آپ (صلى الله عليه وسلم) کوجب پہنچی توآپ نے فرمایا :"اگراس نے ایساکیا توفرشتے اس کو آدبوچیں گے"(رواہ البخاری)

جابربن عبد اللہ کہتے ہیں کہ :"الله كے رسول (صلى الله عليه وسلم) نے محارب خصفہ سے جنگ کی, توانہوں نے مسلمانوں کو غفلت میں دیکھا,توان میں سے غورث بن حارث  نام کا ایک آدمی آپ (صلى الله عليه وسلم) کے پاس آکرکھڑا ہوگیا اورکہا کہ اے محمد! بتاؤ تمہیں مجہ سے اب کون بچا سکتا ہے؟ توآپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا :"الله" اتنا سننا تھا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کرگرگئی,اورآپ  (صلى الله عليه وسلم)نے اسے لے کرفرمایا کہ :" بتا اب تجھےمجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ "تواس نے کہا :"آپ اچھے پکڑنے والے ہوئیے(یعنى احسان کیجیے), توآپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں؟ تو اس نے کہا کہ نہیں, البتہ میں یہ عہد کرتا ہوں کہ آپ سےلڑائی نہیں کروں گا, اورنہ آپ کے خلاف لڑائی میں کسی قوم کا ساتہ دوں گا, آپ (صلى الله عليه وسلم) نے اس کا راستہ چھوڑ دیا, اوروہ واپس چلا گیا اور(اپنی قوم میں جاکر) کہاکہ: میں تمہارے یہاں سب سے بہترانسان کے  پاس سے آرہا ہوں." (رواہ الحاکم وصححہ)

انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ :"ایک نصرانی آدمی تھا جواسلام لے آیا ,اوروہ بقرہ وآل عمران پڑھتا تھا, اورنبی (صلى الله عليه وسلم) کا کاتب بھی تھا, پھروہ نصرانی ہوگیا, اوروہ کہتا پھرتا تھا کہ: "محمد کو اتنا ہی معلوم ہے جتنا میں نے ان کے لئے لکھا تھا" چنانچہ اللہ نے اسے ہلاک کردیا,اور لوگوں نے اسے دفن کردیا, جب صبح ہوئی توزمین نے اسکی لاش کو باہرپھینک دیاتھا. اس پرانہوں نے کہا: یہ محمد اوران کے ساتھیوں کا کام ہے. جب وہ ان کے پاس سے بھاگ آیا توانہوں نے ہمارے آدمی کی قبرکواکھاڑکراسےباہرپھینک دیا,  پہرانہوں نے اس کے لئے قبرکھودی اوراسے خوب گہری کردیا (اوراسکو اسمیں دفن کردیا) لیکن صبح ہوتے ہی زمین نے اسکی لاش کو باہرپھینک دیا, وہ کہنے لگے: یہ محمد اوران کے ساتھیوں کا ہی کام ہے کہ انہوں نے ہمارے ساتھی کی قبرکواکھاڑدیا, چنانچہ انہوں نے پھراسکے لئے استطاعت بھرگہراگڑھا کھودا (اوراسمیں دفن کردیا),لیکن صبح ہوتے ہی زمین نے اسے باہرپھینک دیا. اب انہیں یقین ہوگیا کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں ہے ,چنانچہ انہوں نے اسے ایسے ہی چھوڑدیا. (رواہ البخاری)

اورحفاظت الہی ہی کی مثالوں میں سے آپ (صلى الله عليه وسلم) کو قریش کے خفیہ طورپررات کی تاریکی میں قتل کرنے کی سازش سے محفوظ رکھناہے, جس وقت ان لوگوں نےیہ اتفاق کیا کہ ہرقبیلہ سے ایک نوجوان بہادرشخص کو لیا جائے, پھران میں سے ہرایک کو ایک تیزتلوارسونپ دی جائے جس سے سبھی لوگ آپ  (صلى الله عليه وسلم)پریک بارگی حملہ کریں اور ان کو قتل کردیں, اس طرح آپ کا خون قریش کے تمام قبائل کے درمیا ن متفرق ہوجائے گا اوربنوعبد مناف تما م عرب سے لڑائی نہیں کرسکیں گے. تواللہ رب العالمین نے

جبرئیل علیہ السلام کونازل کرکے آپ    (صلى الله عليه وسلم)کومشرکین کی سازشوں سے باخبرکردیا اور یہ حکم دیا کہ اس رات آپ اپنے بسترپرنہیں لیٹیں گے. اوریہ خبردی کہ اللہ نے آپ کو ہجرت کرنے کی اجازت دیدی ہے.

اورحفاظت الہی میں سے ہے کہ اللہ نے آپ  (صلى الله عليه وسلم)کو سراقہ بن مالک بن جعشم کی چال سے, جوہجرت کے وقت راستے میں آپ کا تعاقب کررہا تھا, محفوظ کردیا. 

اوراسی حفاظت الہی میں سے آپ (صلى الله عليه وسلم) کی غارثورمیں حفاظت کرنا بھی ہے.جب صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! اگران میں سے کسی نے اپنے پیروں کی طرف دیکھا تو وہ ہمیں دیکھ لیں گے. توآپ  (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا :" اے ابوبکر! تمہاراان دونوں کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرااللہ ہے".

اما م ابن کثیررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:  حفاظت الہی ہی میں سے اہل مکہ کے سرداروں ,حاسدوں ,کینہ پروروں ,سرکشوں سے آپ کومحفوظ رکھنا ہے  جنہوں نے رات ودن آپ (صلى الله عليه وسلم) کی عداوت ودشمنی میں ایک کررکھا تھا . اللہ رب العزت نے اپنی غالب قدرت اورعظیم حکمت سے ایسے اسبا ب پیدا کردیے کہ ابتدائے رسالت میں توآپ (صلى الله عليه وسلم) کے چچا ابوطالب کے ذریعہ آپ  (صلى الله عليه وسلم)کی حفاظت فرمائی کیونکہ وہ قریش میں قابل اطاعت سردار سمجھے جاتے تھے اوراللہ نے ان کے دل میں آپ (صلى الله عليه وسلم) کے لیےفطری محبت ڈالدی تھی, اگروہ اسلا م لے آتے تو قوم کےکافراورسرغنہ لوگ آپ پرجرأت کرتے , لیکن چوں کہ ابوطالب اورانکی قوم کے درمیان کفرقدرمشترک تھی اس لئے وہ ان سے خوف کھاتے تھے اوران کا احترام کرتے تھے.

اسی لئے جب آپ (صلى الله عليه وسلم) کے چچا کا انتقال ہوگیا توآپ (صلى الله عليه وسلم) کو مشرکوں نے چند دنوں تک کافی تکلیف پہنچائی, پھراللہ نے آپ کے لئے انصارکو مہیا کردیا جنہوں نے آپ (صلى الله عليه وسلم) سےاسلام پربیعت کی اوراس بات پرکہ آپ (صلى الله عليه وسلم)ان کے گھرمدینہ کی طرف کوچ کرجائیں, پھرجب آپ  (صلى الله عليه وسلم)مدینہ تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کی ہرکالے گورے سے حفاظت فرمائی, اورجب بھی مشرکین یا اہل کتاب میں سےکسی نے آپ کے ساتہ کوئی برائی کا ارادہ کیا تواللہ نے ان کے مکر وفریب کوباطل کرکے اسے انہیں پر لوٹادیا. ( تفسیرابن کثیر2/108-110) باختصار

منتخب کردہ تصویر