Get Adobe Flash player

 آپ  (صلى الله عليه وسلم)جب مدینہ تشریف لے گئے تو اہالی مدینہ نے نہایت پرتپاک اندازسے آپ کا استقبال کیا. آپ (صلى الله عليه وسلم) انصارکے جس گھرسے بھی گزرتے تووہ آپ کی اونٹنی کی نکیل کو پکڑ کر اپنے پاس اترنے کو کہتے, آپ  (صلى الله عليه وسلم)ان سے معذرت کردیتے اورفرماتے کہ اسے چھوڑدو یہ مامورہے یعنی حکم الہی ہی سے جہاں چاہے گی ٹہرے گی. تواوٹنی برابرچلتی رہی یہاں تک کہ مسجد کی جگہ پرپہنچ کربیٹھ گئی, پھراٹھ کھڑی ہوئی اور تھوڑی دیرچلی, پھردوبارہ پہلی جگہ واپس آکربیٹھ گئی, توآپ  (صلى الله عليه وسلم)بنونجارمیں اپنے ننہال  کے پاس اترے, اورفرمایا :"ہمارے اہل میں کس کا گھرسب سے زیادہ قریب ہے؟" توابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا :"میرا اے اللہ کے رسول ! توآپ  (صلى الله عليه وسلم)ابوایوب کے گھرتشریف فرما ہوئے.

مدینہ آنے کے بعد آپ (صلى الله عليه وسلم)  نےجوسب سے پہلاقدم اٹھایا وہ مسجدنبوی کی تعمیرتھی, اس کے لیے اسی جگہ کا انتخاب کیا گیا جہاں آپ (صلى الله عليه وسلم) کی اوٹنی بیٹھی تھی, یہ دویتیم بچوں کی زمین تھی جسے آپ (صلى الله عليه وسلم) نے ان سےخریدلیا, اورآپ(صلى الله عليه وسلم) بہ نفس نفیس مسجد کی تعمیرمیں شریک ہوئے, پھرمسجد کے ہی بغل میں ازواج مطہرات کے کمرے بنائے گئے, جب ازواج مطہرات کے حجرےبن کرتیارہو گئے توآپ (صلى الله عليه وسلم) ابوایوب کے مکان کوچھوڑکران کمروں میں منتقل ہوگئے, پھرآپ (صلى الله عليه وسلم) نےاذان کو مشروع کیا تاکہ لوگ نمازکے وقت اکٹھا ہوسکیں.

پھرآپ (صلى الله عليه وسلم) نے مہاجرین وانصارکے درمیان مواخات (اسلامی بھائی چارہ) کروایا, وہ کل نوے آدمی تھے, نصف مہاجرین اورنصف انصارمیں سے تھے,آپ نے انکے درمیان مواسات وہمدردی پرمواخات کرایا, اوریہ کہ مرنے کے بعد ذوی الارحام کے بجائے وہی آپس میں ایک دوسرے کے وارث بھی ہوں گے,توارث کا یہ حکم غزوہ بدر تک باقی رہا,پھرجب اللہ کا یہ فرمان نازل ہوا:]  وَأُوْلُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ  [  ( سورة الأحزاب:4)

’’اوررشتےدارکتاب اللہ کی روسےبہ نسبت دوسرے مومنوں اورمہاجروں کے آپس میں زیادہ حقدا رہیں"

 تواخوت کوبرقرار رکھتے ہوئےوراثت کوقرابت داروں کے ساتھ مختص کردیا گیا.

اورآپ  (صلى الله عليه وسلم)نے مدینہ کے جویہودی تھے ان سےصلح کرلیا اورآپ (صلى الله عليه وسلم)  کے اوران   کے مابین عہدنامہ لکھاگیا, انکے عالم عبداللہ بن سلام نے پہل کرتے ہوئےاسلام  قبول کرلیا جبکہ انکے عام لوگ کفرپرہی باقی رہے.

آپ (صلى الله عليه وسلم)نے مدینہ کے باشندوں مہاجرین وانصاراوریہودیوں کے درمیان تعلقات کو منظم فرمایا, اوربعض سیرت کی کتابوں نے یہ ذکرکیا ہے کہ انکے مابین ایک وثیقہ (دستاویز)لکھا گیا جسکے  منجملہ دفعات مندرجہ ذیل تھے:

*انصار اور مہاجرین لوگوں کے علاوہ ایک امت ہیں.

*مومنین اپنے بیچ کسی بے بس ومجبورشخص کو(دیت یافدیہ) کومعروف طریقے پر دینے سے مانع نہ ہوں گے.

*اگرمومنوں میں سے کسی نے انکے درمیا ن ظلم وزیادتی یا گنا ہ وفساد اورعداوت ودشمنی کیا تو سارے مومن متقی لوگ اسکے خلاف اٹھ کھڑے ہونگے اگرچہ وہ ان  میں سے کسی کا بیٹا  ہی کیوں نہ ہو.

 کوئی مومن کسی مومن کو کسی کافرکیوجہ سے قتل نہیں کریگا, اورمومن کے خلاف کسی کافرکی مدد نہیں کریگا.

 اللہ کی پناہ ایک ہے ,ان میں سے ایک ادنى' شخص کی پناہ کا اعتبارکیا جائیگا,اورمومنی دیگر لوگوں کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کے دوست وساتھی ہیں.

 اوریہود میں سے جوہمارے تابع ہیں , انکی مدد کی جائیگی اور وہ دیگر مسلمانوں کی طرح ہیں, ان پرکسی قسم کا ظلم نہ کیا جائیگا اورنہ انکے خلاف مددکی جائے گی.

 اورتمہارا کتنا بھی کسی مسئلہ میں اختلا ف ہو تو اسے اللہ اور محمد (صلى الله عليه وسلم) ہی کی طرف لوٹایا جائیگا.

 اور بنی عوف کے یہود, مومنوں کے ساتہ ایک قوم ہیں, یہودیوں کے لئے انکا دین اوررمسلمانوں کے لئے انکادین ,خودان کا بھی وہی حق ہوگا اوران کے غلاموں اور متعلقین کابھی, مگرجواپنے نفس پرخود ظلم کرے اورگناہ کرے تووہ اپنی ذات اوراہل خانہ کوہی تباہی میں ڈالے گا.

 اوریہودیوں کے رازدارخودان کے ہی طرح ہیں, ان میں سے کوئی نبی  (صلى الله عليه وسلم)کی اجازت کے بغیر کہیں نہیں جائیگا.

 اورپڑوسی نفس کی ہی طرح ہے, اسے کوئی تکلیف وگناہ نہیں پہنچایا جائیگا.

 کس اجنبی کو  پناہ نہیں دیا جائیگا مگروہاں کے باشندوں کے حکم سے.

اوران کےعلاوہ اس معاہدہ کے دیگردفعات بھی تھے جس نے مدینہ میں پائے جانے والے گروہوں کے درمیان آپسی رہن سہن کے اصول وضوابط متعین کئے. اورجس نے اسلامی امت کے مفہوم کی تعیین کی جس میں تمام مسلمان شامل ہیں اوراسلامی سلطنت کی تحدید کی جونبی(صلى الله عليه وسلم) کا شہرمدینہ ہے, اورسب سے اعلى' اتھارٹی ومرجع اللہ اور اس کےرسول کےلئے قراردیا خاص طورسے اختلاف ونزاع کے وقت میں.

اس دستاویزنے تمام آزادیوں کی حفاظت کی, جیسے عقیدہ وعبادات اور ہرشخص کے لیے امن وامان کے حق کی آزادی وغیرہ. 

نیز انسانیت کے مابین عدل وبرابری کوقائم رکھا.

اس دستاویز کے دفعات میں غوروفکرسے کام لینے والا بہت سارے تہذیبی اصول پائے گا جسکاآج انسانی حقوق  کا اہتمام کرنے والے مطالبہ کرتے پھرتے ہیں, چنانچہ نبی (صلى الله عليه وسلم) ہی پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے ان تمام حقوق کے خط وخال متعین کیے اورکتاب وسنت کی روشنی میں ان کے قواعد کی نظم بندی فرمائی, اوریہی (حدفاصل )بنیادی فرق ہے اس منصفانہ حقوق انسانی  اوران حقوق کے درمیان جنکی طرف عالمی  تنظیمیں بلاتی ہیں یہ گمان کرتے ہوئے کہ وہ حقوق ہیں جبکہ یہ درحقیقت حق تلفی, ظلم وعدوان , انسانی شرافت کی بے حرمتی وتوہین اوربعض جماعتوں کی حق تلفی کرکے  دیگربعض کی جانبداری ہے.

منتخب کردہ تصویر

unknown-8.png