Get Adobe Flash player

بے شک محمد  ﷺکے پاس کوئی تلوار نہیں تھی جسکے ذریعہ لوگوں کی گردنیں اڑاتے پھرتے رہے ہوں تاکہ لوگوں کوجبراً اسلام قبول کرائیں,قرآن کریم نے اس اصول کی نہایت ہی واضح انداز میں تردید کی ہے,اللہ کا فرمان ہے :]  لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ [ (سورة البقرة :256 ) 

’’دين میں کوئی زبردستی نہیں,,

اوراللہ نے فرمایا :  ]  أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُواْ مُؤْمِنِينَ[ (سورة يونس: 99)

’’کیا آپ لوگوں کومجبورکریں گے تاکہ سب کے سب مومن بن جائیں,,

اوراللہ نے فرمایا : ) لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ[( سورة الكافرون:4)

’’تمہارے لئے تمہارادین ہے اورمیرے لئے میرا دین ہے,,

لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلامی سلطنت داخلی وخارجی ظلم وزیادتیوں کے خلاف ہاتھ پہ ہاتہ دھرے بیٹھی رہے, بلکہ اللہ رب العزت نے مومنوں کواپنا دفاع کرنے کا اور اپنے اوپرہونے والی ظلم وزیادتی کےبقدر(کافروں سے) بغیرکسی زیادتی یا اعتداء کےاپنا حق لینے کی اجازت دی ہے. جیسا کہ اللہ تعالى' کا فرمان ہے :) فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ  [ (سورة البقرة:194)

’’پس جوتم پرزیادتی کرے ,تم اس پرزیادتی کرو اتنا ہی جتنا تم پرزیادتی کی,,

اوراللہ نے فرمایا : ) وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ [ (سورة البقرة:190 )

’’اورالله کی راہ میں ان لوگوں سے قتال کروجوتم سے قتال کرتے ہیں,اورحدسے تجاوز نہ کرو,,

اوراللہ نے فرمایا : ) فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ[ (سورة البقرة:191)

’’پس اگروہ تم سے قتال کریں توتم انہیں قتل کرو,,

اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہےکہ اسلام میں قتال کی اصل مشروعیت دفاع نفس اورامت کوداخلی وخارجی مکروسازش اورظلم وزیادتی سے محفوظ رکھنے کےلئے ہے. جب ہم اسلامی جہاد کی تاریخ پرنظرڈالتے ہیں تویہ حقیقت طشت ازبام ہوجاتی ہے. کیونکہ "جب اہل مکہ کی سرکشی بڑھ گئی توانہوں نے آپ ﷺ کے قتل کی ناپاک سازش کرکےآپ  rکو اپنے گھرسے نکلنے پرمجبورکردیا,توسطرح سے مسلمانوں پرظلم واعتداء کی شروعات انہی کے ذریعہ ہوئی اس طور سے کہ انہوں نے مسلمانوں کوناحق انکے شہرسے نکال دیا, چنانچہ ہجرت کے بعد اللہ رب العالمین نے مسلمانوں کومشرکین قریش سے قتال کرنے کی اجازت دے دی, جیساکہ سورہ حج میں اللہ نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے: ) أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ [ (سورة الحـج:39)

’’جن مومنوں کے خلاف جنگ کی جارہی ہے,انہیں اب جنگ کی اجازت دی گئی ہے اس لئے کہ ان پر ظلم ہوتا رہا ہے,اوربے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر قادرہے جولوگ اپنے گھروں سے ناحق اسلئےنکال دیےگئےکہ انہوں نے کہا ,ہمارارب اللہ ہے,, ...

اس آیت کی بنیاد پرآپ  rبقیہ عرب کو چھوڑ کرصرف قریش ہی سے تعرض کرتے تھے. .

لیکن جب اہل مکہ کے علاوہ دیگرمشرکین عرب بھی مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اورانکے    دشمنوں کےساتہ مل کران کے خلاف باہم متحد ہوگئے, تواللہ رب العالمین نے تمام مشرکین سے قتال کا حکم صادرفرمادیا جیساکہ سورہ توبہ میں اللہ کا ارشاد ہے: ] وَقَاتِلُواْ الْمُشْرِكِينَ كَآفَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَآفَّةً وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ[(  سورة التوبة:36)

’’اورتم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے وہ سب تم سے اکٹھے ہوکرجنگ کرتے ہیں,,

اس طرح سے جہاد ان تمام بت پرستوں کے خلاف عام ہوگیا تھا جن کے پاس کوئی کتاب نہیں ہے,اوریہ آپ  rکے اس قول کے مصداق ہے جس میں آپ نے فرمایا :"مجھے لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ لاالہ الا اللہ کا اقرارکرلیں,پس اگرانہوں نے لاالہ الا اللہ کہ لیا, تو انہوں نے مجھ سے اپنی جان ومال کی حفاظت کرلی, مگراسکے حق کے ساتہ اورانکا حساب اللہ پرہوگا"

اورجب یہود نے مسلمانوں کے معاہدہ کی خلاف ورزی اورخیانت کا مظاہرہ کیا بایں طورکہ انھوں نے مشرکوں کی مسلمانوں کے خلاف لڑائیوں میں مدد کی تواللہ نے ان یہودیوں سے بھی جنگ کرنی کی اجازت دیدی جیسا کہ سورہ انفال میں یہ ارشاد ہے:  ]  وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِيَانَةً فَانبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاء إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الخَائِنِينَ[(سورة الأنفال : 58)

’’اوراگرآپ کو کسی قوم کی جانب سے خیانت کا ڈر  ہوتوبرابری کی حالت میں ان کا عہد نامہ توڑدے,اللہ تعالى' خیانت کرنے والوں کوپسند نہیں فرماتا,,

اوریہودیوں سے اس وقت تک جنگ کرنا واجب ہے یہاں تک کہ دین اسلام کوقبول کرلیں یا ذلت ورسوائی کھاکرجزیہ دینے لگ جائیں,تاکہ مسلمان ان کی جانب سے مامون ہوجائیں1.

اسی طرح نصاری' سے بھی آپ  rنے خود جنگ کی شروعات نہ کی, جیساکہ شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرماتے ہیں:" رہی بات نصاری' کی توآپ ﷺ نے ان میں کسی سے جنگ نہیں کی, یہاں تک کہ آپ rنے صلح حدیبیہ کے بعد تمام بادشاہوں کے پاس انہیں اسلام کی دعوت دینے کے لیےاپنے قاصدوں کو بھیجا, چنانچہ آپ نےقیصروکسری اورمقوقس ونجاشی اورمشرق وشام کے تمام عرب بادشاہوں کے پاس اپنے قاصد کوبھیجا. 

چنانچہ نصاری' اوران کےعلاوہ ديگر لوگوں ميں سے جوبھی اسلام میں داخل ہونا چاہے ہوگئے, اس پرشام کے نصارى' نے معان میں اپنے اسلام لانے والےبعض بڑے لوگوں کو قتل کردیا.

اس طرح نصارى' نے ہی سب سے پہلےمسلمانوں سے جنگ کی,اوران میں سے جواسلام لائے انہیں ظلم وزيادتي كرتے هوئے قتل کرڈالا, ورنہ آپ r نے اپنے قاصدین کو اس لیے بھیجا تھا کہ لوگوں کو برضا ورغبت اسلام کی طرف بلائیں نہ کہ ان پر جبر کریں, چنانچہ کسی کوبھی اسلام  قبول کرنے پرمجبورنہیں کیا گیا" 2

  بنابریں رسول  ﷺکا دشنموں سے قتال مندرجہ ذیل اصول پر مبنی تھا:

1- مشرکین قریش کو محارب سمجھنا کیونکہ انہوں نے ہی سرکشی (اعتدا وزیادتی) شروع کی تھی, اسی وجہ سے مسلمانوں نے ان سے جنگ کی.

2- جب یہودیوں کی جانب سے خیانت اورمشرکوں  کی جانب داری دیکھی گئی توان سے جنگ کیا گیا.

3- جب کسی عرب قبیلے نے مسلمانوں پراعتداء کی یا قریش کی مدد کی توان سے جنگ کی گئی یہاں تک کہ اسلام کواپنالیں.

4- اہل کتاب میں سے جس نے بھی عداوت ودشمنی کا آغازکیا جیسے نصارى' توان سے قتال کیا گیا یہاں تک کہ وہ اسلام کوگلے سے لگالیں یا جزیہ دینے لگیں.

5- جوبھی حلقہ بگوشہ اسلام ہوگیا اس نے اپنی جان ومال کو محفوظ کرلیا مگراس کا حق برقرارہے, اور اسلام سابقہ چیزوں کو مٹا دیتا ہے3.

1. (نورالیقین ص(84,85)

2. (قاعدۃ مختصرۃ فی قتال الکفارومھادتنھم ص(135,136)

3. دیکھیے:نورالیقی ص(85)

منتخب کردہ تصویر