Get Adobe Flash player

خادموں اورغلاموں کے ساتہ آپ  (صلى الله عليه وسلم)کی مہربانی ورحمت:

اسلام سے ماقبل خادموں اورغلاموں کے کوئی حقوق تھے نہ عزت وتکریم ,جب اللہ رب العالمین نے اسلام کے ذریعہ دنیا کوعزت بخشی توآپ (صلى الله عليه وسلم) نے ان سے ظلم وبربریت کا خاتمہ کیا,انکے حقوق کومتعین کرکے ان پرظلم کرنے والوں ,انکے نقائص وعیب جوئی کرنے والوں یاان پرلعن طعن کرنے والوں کو دردناک عذاب سے ڈرایا.

معروربن سوید کہتے ہیں کہ میں نے ابوذررضی اللہ عنہ کوایک جوڑے میں ملبوس دیکھا,اورانکے غلام پربھی اسی کے مانند ایک جوڑاتھا, کہتے ہیں کہ میں نے ان سے اسکے بارے میں پوچھا,توابوذرنے فرمایا کہ: " میں نے عہدرسالت  (صلى الله عليه وسلم)میں ایک آدمی کواس کی ماں کے بارے میں عاردلائی تو اس آدمی نے آکرآپ (صلى الله عليه وسلم)سے کہدیا, توآپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا:"  بے شک تمہارے اندرابھی جاہلیت کی خوباقی ہے,تمہارے بھائی تمہارےخادم وغلام ہیں ,اللہ نے ان کوتمہارے ماتحت کیا ہے,توجس شخص کے پاس کوئی اس کی ماتحتی میں ہو,تواسے بھی وہی کھلائے جوخود کھائے, اوروھی پہنائے جوخود پہنے,اوران کو اتنے کام کا مکلف نہ بناؤ جوان کی طاقت سے باہرہو,لیکن اگرتم نے ان کوضرورت سے زیادہ کام دیدیا توتم خود ان کی اسمیں مدد کرو"(متفق علیہ ) 

توآپ نے دیکھا کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے کس طرح نوکرکو بھائی کے درجہ میں رکھا ہے,تاکہ ایک مسلمان کے دل میں یہ بات جاگزیں ہوجائےکہ اگراس نے اس خادم پرظلم کیا, یا کوئی برائی کیا یا ناحق اس کے مال کوکھایا, تووہ گویاایسے ہی ہے جواپنے بھائی کے ساتہ اس طرح کابرتاؤ کرتا ہے. پھرآپ  (صلى الله عليه وسلم)نے انکے ساتہ بھلائی ونرمی میں مبالغہ سے پیش آنے کا حکم دیا,اورانہیں بعینہ اسی جنس ونوعیت کا کھانا کھلانے ,لباس پہنانے,اورانکی عزت وتکریم کرنے کا حکم دیا جس طرح وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے,اسی لئے ابوذررضی اللہ عنہ اپنے خادم کواپنی ہی طرح کا جوڑاپہناتے تھے.

اسی طرح آپ  (صلى الله عليه وسلم)نے اس حدیث کے اندر غلاموں یانوکروں کو ان کی طاقت سےزیادہ کام کا مکلف کرنے سے منع فرمایا ہے, اوریہ انکے ساتہ تخفیف ونرمی اورانہیں راحت وآسانی پہنچانے کو متضمن ہے.

ابومسعودانصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :"میں اپنے غلام کوکوڑے سے ماررہاتھاکہ اپنے پیچھے سے ایک آوازسنا,"خبرداراے ابومسعود!"توغصّہ کی وجہ سے میں آوازکوپہچان نہ سکا,کہتے ہیں کہ جب وہ مجھ سے قریب ہوئے تودیکھتا ہوں کہ وہ (صلى الله عليه وسلم)تھے جویہ کہہ رہے تھے: "خبرداراے ابو مسعود!" تومیں نے اپنے ہاتھ سے کوڑے کوپھینک دیا,آپ (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا:"اے ابومسعود! جان لوکہ جتنا تم اس غلام پرقادر ہو اس سے کہیں بڑھ کر اللہ تعالی تمہارے اوپر ق رسول ادر ہے." ابومسعود کہتے ہیں كہ میں نے کہا: "اب میں اس کے بعد کبھی کسی غلام کونہیں ماروں گا."

اورایک روایت میں ہے کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! وہ اللہ کے لئے آزاد ہے" توآپ  (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا: "اگرتم ایسا نہ کرتے توتم کوآگ کے شعلہ اپنی لپیٹ میں لے لیتے." (رواہ مسلم)

اورآپ (صلى الله عليه وسلم)کا فرمان ہے :"جس نے کسی غلام کوطمانچہ رسید کیا یا اسے ماراپیٹا تواس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے وہ آزاد کردے." (رواہ ابوداود وصححہ الألبانی)

تونبی (صلى الله عليه وسلم) ہی ہیں جنہوں نے کمزورں کوبچایا,اورغلامں کوآزادکیا,اورخاموں ونوکروں کوانصاف دلایا,اورشکستہ دل لوگوں کے ساتہ کھڑے ہوئے, ان کی کمی کوپورا کیا,اورانکے دلوں کے زخموں کوبھرااورآرام وراحت پہنچائی.

ابومعاویہ بن سوید بن مقرن کہتے ہیں کہ :"میں نے اپنے ایک غلام کوطمانچہ رسید کردیا تومیرے باپ نے اسے اورمجھے بلوایا, پھرانھوں نے اس کو حکم دیا: اس سے بدلہ لو, کیونکہ ہم بنومقرن آپ (صلى الله عليه وسلم) کے زمانہ میں سات لوگ تھے, اورہمارے پاس صرف ایک ہی خادم تھا,توہم میں سے ایک آدمی نے اس کوطمانچہ رسید کردیا, توآپ (صلى الله عليه وسلم)  نے فرمایا:"اسکوآزادکردو" تولوگوں نے کہا : اسکے علاوہ ہمارے پاس کوئی دوسراخادم نہیں ہے, توآپ (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا: "وہ ان لوگوں کی خدمت کرے یہاں تک کہ وہ بے نیازہوجائیں (مالدار ہوجائیں), جب وہ بے نیاز(مالدار)ہوجائیں تواسے آزاد کردیں " (رواہ مسلم) 

یہ ہیں محمد (صلى الله عليه وسلم),اوریہ ہے آپ (صلى الله عليه وسلم)کا غلاموں اورخادموں کے ساتہ موقف ورویہّ, تووہ لوگ جوانسانی آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں ان کا ان مواقف سے کیا نسبت ہے ؟؟

آپ محمدعربی  (صلى الله عليه وسلم)کے خادموں کے ساتہ برتاؤ کا عملی نمونہ مشاہد ہ کرتے چلیں,انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :"میں دس سال تک آپ (صلى الله عليه وسلم) کی خدمت کرتا رہا. اللہ کی قسم ! کبھی آپ نے مجھے اف تک نہ کہا,اورنہ ہی کسی چیزکو میں نے کیا تو یہ کہاکہ : ایسا تونے کیوں کیا؟ اور نہ ہی کسی چیزکےنہ کرنے پریہ کہاکہ:"تونے ایساکیوں نہیں کیا ؟" (متفق علیہ)

اورایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں کہ :" اورکسی چیزکے بارے میں مجھ پرعیب نہ لگایا" (رواہ مسلم) 

اورآپ  (صلى الله عليه وسلم)خادم سے کہا کرتے تھے : "کیا تمہیں کسی چیزکی ضرورت ہے؟" (رواہ احمد وصححہ الألبانی)

 

انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :"مدینہ کی لونڈی آپ  (صلى الله عليه وسلم)کا ہاتھ پکڑلیتی تھی ,اورآپ اس سے اپنے ہاتھ کونہیں چھڑاتے یہاں تک کہ وہ مدینہ میں جہاں چاہتی اپنی حاجت کے پورا کروانے کے لئے لے جاتی" (رواہ ابن ماجہ وصححہ الألبانی)  

منتخب کردہ تصویر

حقوق الرسول صلى الله عليه وسلم على أمته